لاہور کی گرم فضاء میں پرانی حویلی کی خاموشی چیخ رہی تھی۔ سڑک سے ہٹ کر ایک تنگ گلی میں یہ حویلی ایسی کھڑی تھی جیسے زمانے کے بوجھ تلے دبی ہو۔ سلمان، جو ایک نوجوان صحافی تھا، اس حویلی کے سامنے کھڑا تھا۔ اسے ایک گمنام خط موصول ہوا تھا جس میں اس حویلی کے ایک راز کے بارے میں لکھا تھا۔ 

حویلی کا بڑا سا دروازہ بند تھا اور اس پر جگہ جگہ گزرے وقتوں کے نشان تھے۔ سلمان  نے دروازے پر دستک دی لیکن کوئی جواب نہ آیا۔ کچھ دیر انتظار کے بعد، ایک بوڑھا آدمی دروازے سے سر باھر نکال کر دیکھنے لگا۔ اس کے چہرے پر پریشانی کے سائے تھے۔"جی، کیا بات ہے؟" بوڑھے نے پوچھا۔"میں سلمان ہوں، ایک صحافی۔ مجھے اس حویلی کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کرنی ہیں،" سلمان نے جواب دیا۔

بوڑھا تذبذب میں پڑ گیا۔ "حویلی کے بارے میں کیا جاننا چاہتے ہو؟" اس نے پوچھا۔

مجھے کچھ دن پہلے ایک خط ملا تھا جس میں لکھا تھا کہ اس حویلی میں کوئی راز چھپا ہے،" سلمان نے بتایا۔ "میں اس بارے میں تحقیق کرنا چاہتا ہوں''۔

بوڑھے نے کچھ سوچا اور پھر سلمان کو حویلی کے اندر آنے کی اجازت دے دی۔ حویلی کے اندرونی حصے میں وقت تھم سا گیا تھا۔ پرانی کرسیاں، پینٹنگز اور گرد سے اٹی ہوئی الماریاں ماضی کی کہانیاں سننانے کو تیار تھیں۔

     یہ حویلی کب سے بند ہے؟" سلمان نے پوچھا، حویلی کا جائزہ لیتے ہوئے۔

کئی سال ہو گئے،" بوڑھا بولا، آہ بھرتے ہوئے۔ جب سے... جب سے ستارہ بیگم یہاں سے چلی گئیں۔

ستارہ بیگم کون تھیں؟" سلمان نے پوچھا، اس نام میں دلچسپی لیتے ہوئے۔

وہ اس حویلی کی مالکہ تھیں،" بوڑھے نے بتایا۔ "بہت امیر تھیں، لیکن اکیلی رہتی تھیں۔ لوگ کہتے ہیں ان کے پاس ایک مٹی کا بہت ہی قیمتی بت تھا"۔

مٹی کا بت؟" سلمان نے حیرت سے پوچھا۔

جی ہاں،" بوڑھے نے سر ہلایا۔ "بہت قدیم بت، جس کے بارے میں بہت سی کہانیاں مشہور تھیں"۔

اس رات سلمان حویلی میں ہی ٹھہر گیا۔ رات کو اسے عجیب سی آوازیں سنائی دیں۔ کیا یہ وہ راز تھا جس کی تلاش میں وہ آیا تھا؟ کیا مٹی کا بت واقعی موجود تھا؟

اگلے دن سلمان نے بوڑھے سے مزید تفصیلی بات چیت کی۔ بوڑھے نے بتایا کہ ستارہ بیگم بہت راز کی زندگی گزارتی تھیں اور ان کے بارے میں بہت کم لوگوں کو ہی پتہ تھا۔ وہ راتوں کواکثرغائب ہو جاتی تھیں اورپھر اچانک ہی اپنے کمرےمیں پائی جاتیں۔ وہ کہاں سے جاتیں اور کہاں سےواپس آجاتیں کوئی نہیں جانتا۔ اور پھر اچانک ایک دن ایسی غائب ھوئیں کہ لوٹ کر ہی نہیں آئیں۔  

سلمان نے گھرکا جائزہ لینے کی اجازت لے کرپورے گھر کا ایک چکرلگایا۔

''ایسی پرانی حویلیوں کے اکثرنقشے موجود ہوتے ہیں، کیا اس حویلی کا کوئی بھی کوئی نقشہ ہے؟'' سلمان نے پوچھا۔

پہلے توبوڑھے نے ٹال مٹول سے کام لیا لیکن پھرجلد ہی اسکویقین ھو گیا کہ یہ لڑکا ایسے نہیں مانے گا، بوڑھے نے کچھ دیر سوچا اور پھر سلمان کو ایک پرانی کتاب دکھائی جس میں حویلی کانقشہ بنا ہوا تھا۔ نقشے میں ایک کمرہ چھپا ہوا تھا جس تک پہنچنے کا راستہ ظاہر نہیں تھا۔

''یہ کمرہ کہاں ہے؟" سلمان نےنقشے پر ایک جگہ انگلی رکھ کر پوچھا، اپنا تجسس چھپائے بغیر۔ 

بوڑھے نے نفی میں سرہلایا۔

اس نے نقشھے کا بغور مطالعہ کیا اور اس کمرے تک پہنچنے کا راستہ تلاش کرنے لگا۔ دن بھر نقشے کو گھورتے اور حویلی کا معائنہ کرنے میں گزرگیا لیکن کوئی سراغ نہ ملا۔ شام ڈھلنے کے قریب سلمان حویلی کے صحن میں ٹہل رہا تھا۔ اچانک اس کی نظر برآمدے کی دیوار پر پڑی جہاں پرانی سیٹھ والی گھڑیال لگی ہوئی تھی۔ گھڑیال بند تھا لیکن اس کا پنڈولم آہستہ سے ہل رہا تھا۔ سلمان کے ذہن میں بجلی سی کوند گئی۔

وہ تیزی سے گھڑیال کے پاس گیا اور اسے غور سے دیکھنے لگا۔ پنڈولم کے پیچھے دیوار میں ایک چھوٹی سی پینل نظر آئی۔ اس نے پینل کو دھکا دیا اور وہ ایک طرف سرک گیا۔ پینل کے پیچھے ایک تنگ سی سیڑھی نظر آئی جو نیچے کی طرف جاتی تھی۔ 

سلمان نے بوڑھے کو بلايا اور دریافت کیا کہ کیا وہ اس سیڑھی کے بارے میں جانتا ہے؟ بوڑھا حیرت سے سکتے میں آ گیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اسے اس سیڑھی کا علم نہیں تھا۔ سلمان نے بوڑھے کو حویلی میں ہی رہنے کو کہا اور خود سیڑھیوں سے نیچے اترنے لگا۔

سیڑھیاں بہت لمبی اور تاریک تھیں۔ سلمان نے اپنے موبائل کی ٹارچ روشن کر لی اور آگے بڑھتا گیا۔ کچھ دیر چلنے کے بعد وہ ایک تنگ سی راھداری میں داخل ہوا۔  دیواروں پر مشعل روشن تھیں جو ماحول کومزید خوفناک بنا رہی تھیں۔ وہ راھداری میں چلتا رہا یہاں تک کہ ایک بڑے سے دروازے پر پہنچ گیا۔ دروازہ پرانے زمانے کا تھا اور اس پر عجیب و غریب نشانات بنے ہوئے تھے۔ سلمان نے دروازے کو دھیرے سے کھولا۔  

        اندھیرے کمرے میں داخل ہوتے ہی سلمان کی سانس اٹک گئی۔ کمرے کے وسط میں ایک جگوار کی کھال پر ایک بوڑھی عورت کی لاش پڑی ہوئی تھی۔ لاش کو دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا جیسے کچھ عرصہ پہلے ہی اسکی موت واقع ہوئی ہو۔

اگر یہ ستارہ بیگم کی لاش تھی تواس بوڑھے نے جھوٹ کیوں بولا؟ سلمان کے زہن میں یہ سوال کوندہ۔

عورت کے ہاتھ میں وہ مٹی کا بت تھا جس کا ذکر بوڑھے نے کیا تھا۔ بت کی آنکھیں جگمگا رہی تھیں جیسے وہ کسی راز کی نگہبانی کر رہا ہو۔

 

Author
Admin