اندھیرے کمرے میں داخل ہوتے ہی سلمان کی سانس اٹک گئی۔ کمرے کے وسط میں ایک جگوار کی کھال پر ایک بوڑھی عورت کی لاش پڑی ہوئی تھی۔ عورت کے ہاتھ میں وہ مٹی کا بت تھا جس کا ذکر بوڑھے نے کیا تھا۔ بت کی آنکھیں جگمگا رہی تھیں جیسے وہ کچھ راز کی نگہبانی کر رہا ہو۔

سلمان چونک کر پیچھے ہٹنے لگا کہ اچانک اسے احساس ہوا کہ وہ کمرے میں اکیلا نہیں ہے۔ کونے میں سے ایک لمبے قد کا آدمی سایوں سے باہر نکلا۔ اس کے ہاتھ میں ایک خنجر تھا اور اس کی آنکھوں میں خون آشامی کا شوق تھا۔ "وہ بت میرا ھے، تم چلے جائو یھاں سے !" آدمی نے گرجدار آواز میں کہا۔ سلمان نے گھبرا کر بت کی طرف دیکھا پھر آدمی کی طرف۔ اس کے ذہن میں سینکڑوں سوالات گردش کر رہے تھے۔ یہ آدمی کون تھا؟ ستارہ بیگم کے ساتھ کیا ہوا تھا؟ اوراس مٹی کے بت میں آخر کیا راز تھا؟ سلمان نے لمحے بھر میں فیصلہ کر لیا۔ وہ جانتا تھا کہ اس آدمی سے لڑنا بے کار ہو گا، اس لیے اس نے اس وقت معاملہ سلجھانے کی کوشش کی۔ "میں نہیں جانتا آپ کس بت کی بات کر رہے ہیں،" سلمان نے گھبراہٹ چھپاتے ہوئے کہا۔ "میں صرف اس حویلی کے بارے میں معلومات حاصل کر رہا تھا"۔ 

        آدمی سلمان کی بات پر یقین نہیں کرنا چاھتا تھا لیکن اسے بت کی ضرورت بھی تھی۔ "مجھے پتہ ہے تم جھوٹ بول رہے ہو،" آدمی نے غصے سے کہا، "لیکن تمہیں یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ بت میرے خاندان کا ہے۔ وہ عورت اسے چوری کر کے یہاں لے آئی تھی"۔                  

سلمان کو احساس ہوا کہ یہ بات سچ ہو سکتی ہے۔ اس نےلاش کے پاس پڑے ہوئے کاغذات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا، "تو پھر یہ کاغذات کیا ہیں؟ آدمی نے کاغذات کو اٹھایا اور پڑھنا شروع کیا۔ ان میں ستارہ بیگم نے بت کی تاریخ اور اس کی طاقت کے بارے میں لکھا تھا۔ بت ایک قدیم تہذیب سے تعلق رکھتا تھا اور اس میں بیماریوں کو دور کرنے کی طاقت تھی۔

لیکن آدمی کی آنکھوں میں لالچ سوا کچھ نہیں تھا۔ وہ بت کو صرف اس کی مالیاتی قیمت کی وجہ سے چاہتا تھا۔ سلمان کو محسوس ھورہا تھا کہ یہ آدمی کچھ توجھوٹ بول رھا ھے سلمان جانتا تھا کہ اگراس نے پولیس کو بلا لیا تو شاید وہ بت کا راز اور اسکا ستارہ بیگم کی موت سے کیا لنک ہے یہ نہیں جان پائے گا۔ اس نے کچھ  سوچااور پھربولا۔ "میں آپ کی مدد کر سکتا ہوں اس بت کو چپ چاپ یہاں سے لے جانے میں،" سلمان نے آدمی کو یقین دلانے کی کوشش کی۔ "لیکن پہلے مجھے یہ جاننا ہے کہ ستارہ بیگم کے ساتھ کیا ہوا؟ " آدمی (جسنے اپنا نام عاقب بتایا) اس نے سلمان کو بتایا کہ وہ ستارہ بیگم کا رشتہ دار تھا اورعرصہ دراز سے بت کی تلاش میں تھا۔ اسے اس کے دادا نے اس بت کے بارے میں بتایا تھا کہ یہ ایک کراماتی بت ہے لیکن کس ۃسم کی کرامات؟ اسے اسکا علم  نہیں۔ اس نےبتایا کہ اسے حال ہی میں پتہ چلا تھا کہ ستارہ بیگم کے پاس یہ بت ہے اور وہ اسے چھیننے کے لیے آیا تھا۔ لیکن وہ پہنچا تو ستارہ بیگم مر چکی تھی اور بت اس کے پاس تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ اس بت کو لے کر بھاگتا سلمان وہاں پہنچ گیابس یہ سارہ ماجرہ تھا۔ 

سلمان نے لاش کا معائنہ کیا، اسے یقین ہو گیا کہ ستارہ بیگم کا قتل ہوا ہےاوراسےزہردیا گیا ہے کیونکہ اسکے ہونٹ نیلےپڑچکےتھے۔ اس نےعاقب کو کہا کہ اصولی طور پر تو پولیس کو بلانا چاہیے لیکن وہ اسے ایک بہتر تجویز دے سکتا ہے۔

  ہم دونوں مل کر راز کو سلجھاتے ہیں، سلمان نے تجویز پیش کی۔ "پولیس کو بتانے کے بجائے ہم خود ہی پتہ کرتے ہیں کہ ستارہ بیگم کو کس نے قتل کیا اور اس بت کااسکی موت سےکیاتعلق ہے؟"۔ 

عاقب نے تھوڑی دیر سوچا اور پھر سلمان کی بات سے اتفاق کر لیا۔ اسے پولیس الجھنا نہیں تھا اسے بس بت سے مطلب تھا لیکن وہ یہ بھی چاہتا تھا کہ ستارہ بیگم کے قاتل کو سزا ملے۔ اس طرح سلمان اورعاقب نے ایک غیر معمولی اتحاد کر لیا۔ انہوں نے کمرے کا معائنہ کیا اور اس میں سے سراغوں کو جمع کیا۔ انہیں پتہ چلا کہ ستارہ بیگم کو۔ وہ اگلے کچھ دن حویلی میں ہی رہے اور ستارہ بیگم کے بارے میں معلومات اکٹھی کرتے رہے۔ انہیں پتہ چلا کہ ستارہ بیگم ایک آرکیالوجسٹ تھیں اور انہیں اس بت کی اوراسکے رازکی تلاش میں برسوں لگ گئے تھے۔ آخر کار انہیں انہیں ان کاغزات سے پتا چلا کہ یہ بت ایک غار میں چھپا ہوا تھا۔ 

سلمان نے اس سلسلے میں ستارہ بیگم کےملازم سے پوچھا تواسنے بس اتنا بتایاکہ ستارہ بیگم نے غار سے بت نکالنے کے لیے ایک شیخوپورہ کےنواح میں موجودکسی گاوں کےایک گائیڈ کی مدد لی تھی۔ سلمان کواس بوڑھےکےلہجےمیں عجیب سی بیچینی محسوس ہوئی۔

 سلمان اورعاقب نے فیصلہ کیا کہ وہ اس گائیڈ سے ملیں گے۔ وہ اس گائیڈ کے گاؤں پہنچےاور اسےڈھونڈنےکی کوشش کی۔ گاؤں والوں نے بتایا کہ گائیڈ کچھ عرصہ پہلے بیمار ہو کر مر گیا تھا لیکن اس کا ایک نوجوان بیٹا ہے۔ سلمان اور عاقب نے نوجوان سے رابطہ کیا اور اسے ساری کہانی بتائی۔

نوجوان حیران رہ گیا۔ اسے اپنے والد کی ستارہ بیگم کے ساتھ کسی ڈیلنگ کا علم نہیں تھا۔ البتہ وہ اس قدیم غارکےبارےمیں جانتا تھااس لیے وہ ان کی مدد کرنے کے لیے تیار ہو گیا۔ وہ تینوں غار کی طرف روانہ ہو گئے۔ راستہ دشوار گزار تھا لیکن وہ آخر کار غار کے منہ تک پہنچ گئے۔ اندھیرا غار انہیں خوفزدہ کر رہا تھا لیکن ان کے پاس واپسی کا راستہ نہیں تھا۔ نوجوان نے اپنے والد سے سنی ہوئی باتوں کو بتاتے ہوئے آگے بڑھنا شروع کیا۔ غار کے اندرونی راستے بہت سے نشیب و فراز سے گزرتے تھے۔ کچھ جگہوں پر انہیں رسیوں کی مدد سے نیچے اترنا پڑا اور کچھ جگہوں پر تنگ راستوں سے ہو کر گزرنا پڑا۔ آخر کار وہ ایک بڑے سے کمرے میں پہنچے جہاں روشنی کا ایک سِلسلہ نظر آرہا تھا۔ قریب جانے پر انہیں پتہ چلا کہ وہ روشنی دراصل جگنوؤں کی وجہ سے تھی۔ جگنوؤں کی روشنی میں انہیں ایک عجیب ساخت اور جسامت کا پتھرنظر آیا جس پر ایک اور مٹی کا بت رکھا ہوا تھا۔ اس پتھر پرعجیب نقشہ سا بنا تھا جس میں بت اک خاص مقام پر پڑا تھا۔  

لیکن یہ بت اس سے تھوڑا مختلف تھا جو ستارہ بیگم کے پاس تھا۔ اس بت پر عجیب و غریب نشانات بنے ہوئے تھے۔ سلمان نے اسے غور سے دیکھنے کو کہا۔ عاقب نے بتایا کہ شاید یہ بت اصل بت کی ایک نقل ہے اور اصل بت ستارہ بیگم کے پاس والا ہی ہے۔ ہو سکتا ہے ستارہ بیگم نے اصلی بت کی طاقت کو جاننےاوردوسرے لوگوں کوگمراہ کرنے کے لیےنقل بنائی ہو۔ تاکہ وہ آسانی سے اس بت پر اپنی رسرچ مکمل کر سکیں۔

اس بات پر غور کرتے ہوئے انہیں ایک اور بات یاد آئی۔ ستارہ بیگم آرکیالوجسٹ تھیں اور انہیں قدیم تہذیبوں کے بارے میں بہت علم تھا۔ شاید انہیں لاش کے پاس ملے ہوئے کاغذات میں بت کی طاقت جاننے کا راز لکھا ہو۔

وہ واپس حویلی گئے اور کاغذات کا دوبارہ بغور مطالعہ کیا۔ آخر کار انہیں ایک اشارہ ملا۔ کاغذات میں ایک مخصوص جڑی بوٹی کا ذکر تھا جو اس بت سے منسلک تھی۔ اسکےعلاوہ کچھ کاغذات پر کسی قدیم زبان میں تحریر موجود تھیں۔ اب پرابلم یہ تھی کہ ان تحریروں کا ترجمہ کیسےکیا جائے۔ اس سلسلہ میں عاقب نے بتایا کہ اسکے دادا اس سلسلہ میں شاید انکی مدد کر سکیں۔ ان تینوں نے دادا کے پاس جانے کا فیصلہ کیا۔ 

دادا نے کچہ دیران کاغزات کا مطالعہ کیا اور پہراٹھ کر اپنی لائبریری میں چلے گئے جب وہ واپس آئے تو ان کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی جس کی جلد بہت خستہ حال تھی۔ یہ کتاب دکھنے میں ہی بہت پرانی لگ رہئ تھی۔ عاقب کے دادا نے اس کی مدد سے ان کاغزات کا مطالعہ کرنے کی کوشش کی۔ کافی دیر کے بعد وہ بولے کہ مجھے وہ بت دیکھنا ھے۔  

دادا کے ساتھ وہ تینوں واپس حویلی آگئے اور تہخانے میں جیسے ھی داخل ہوئے انہں ایک جھٹکا لگا۔ کیونکہ وہاں لاش موجود نہیں تھی۔ سلمان نے فورااس بوڑھے شخص کوپوچھا کہ لاش کہا ھے۔ اس نے بنا کسی تزبزب کے بتا دیا کہ لاش بو چھوڑ رہی تھی اس لیے اس نے دفن کر دی۔ اسکا انداز بہت عجیب تھا۔ اس سے انہیں اندازہ ہوگیا کہ ستارہ بیگم کو زہردینے میں اس بوڑھے کا ھاتھ ہے کیونکہ اس ھویلی میں وہی ستارہ بیگم کے ساتھ رہتا تھا۔ اورجیسے ھی اسکو موقع ملا اس نے لاش کو ھی ٹھکانے لگا دیا۔ 

بہرحال فلحال انہیں بت کے راز کو جاننا تھا۔ کیونکہ ستارہ بیگم کی موت کا راز بہی اسی کے ساتھ ھی منسلک تھا۔ 

عاقب کے دادا نے بت کا بغور جائزہ لیا۔ اور بت اورکاغزات کو اٹھا کربولے،’’مجھے اس غار میں لے چلو‘‘۔ 

وہ سب غارمیں اس مقام تک پہنچے جہاں وہ دوسرا بت موجود تھا۔ دادا نے وہ بت ہٹانے کو کہا اور اس کی جگہ اسلی بت رکھ دیا۔ اور سب کو کچھ فاصلہ پر کھڑے ہونے کو کہا۔ خود دادا نے ایک کاغزسے کچھ پڑھنا شروع کیا۔ اچانک ایک غڑغڑاہٹ کی آواز کے ساتھ وہ پتھر جس پر بت رکھا تھا وہ درمیان سے کھلنے لگا اور اسکےاندر سے عجیب روشنی نکلنے لگی۔ جب آوازیں رکی توانہوں نے ہمت کرکےآگے بڑھ کر دیکھا تو دنگ رہ گے۔

اندر کا تو نظارہ ھی الگ تھا۔ اندرسفید رنگ کے بہت سے پودے موجود تھے جن پر رنگ برنگے پھول لگے تھے اور ان  پھولوں سے روشنیاں نکل رہی تھیں۔ 

اب دادا نے چپ توڑی اور بولنا شروع کیا۔

'' تقریبا دس پیڑھیوں سے یہ کتاب ھمارے خاندان کے پاس ھے اور اور اس قدیم بت کی کہانی سینہ بہ سینہ منتقل ھو رھی ھے۔ البتہ اسکا اصل راز کوئی بھی نہی تلاش کر پایا تھا۔ دراصل یہ کتاب ھمارے جدامجد کو ایک مرتے ھوے شخص نے دی تھی۔ مگراس سے پہلے کہ وہ کچھ اور بتاتا وہ دم توڑ گیا۔ اسکے بعد نسل در نسل یہ اثاثہ آگے منتقل ہوتا گیا۔ جب مجھے یہ کتاب ملی تو میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں یہ راز ضرور تلاش کروں گا۔ ستارہ بیگم میری کلاسفیلوتھیں اورایک بہترین رسرچربھی تھیں۔ جب میں نے انکو اس بت کے بارے میں بتایا توانہوں نے اس بت میں اپنی دلچسپی دکھاتے ھوے میرے ساتھ اس پررسرچ شروع کردی۔ ھم نے اس پر کافی کام مل کر کیا لیکن آہستہ آہستہ مجھے اس بات کا اندازہ ھونے لگا کہ انکی طبیعت میں کچھ لالچ آنے لگا تھا۔ ایک دن کسی بات پر ھماری بحث ہوگئی اور رہ چلی گئی۔ لیکن کچھ دن بعد مجھے اندازہ ھوا کہ وہ تمام ڈیٹا جو ھم نے اکٹھا کیا تھا وہ اپنے ساتھ لے گئی تھی اورمیرے پاس سوائے اس کتاب کے کچھ نہیں بچا تھا۔ میں نے ھمت ھاردی تھی اورامید بھی چھوڑ دی تھی۔ مگرسینہ بہ سینہ منتقل ھونے والی کہانی آگے اپنی اولاد کومنتقل کردی۔ کچھ عرصہ پہلے عاقب کوستارہ بیگم کے بارے میں معلوم ھوا کہ وہ کہاں ھے۔ عاقب کواس راز سے تومطلب نہیں تھا البتہ اس قدیم بت کی قیمت سےمطلب تھا۔ اس لیے وہ اس ستارہ بیگم کی تلاش میں لگ گیا۔ اورآگے کیا ھوا آپ جانتےہیں''۔

اس سب گفتگوکے دوران عاقب کی نظرمسلسل اس بت اور پودوں پرتھی۔ شاید وہ انکی مالیت کا اندازہ لگا رھا تھا۔ 

جب دادا چپ ھوے تووہ بولا،''اصولی طورپرتویہ سب کچھ ھمارہ ھے''۔ اس سےپہلےکہ اسکے دادا کچھ کہتےعاقب نے تیزی سے وہ بت اٹھاناچاہا مگراسی دوران اسکا پائوں اٹکا اور بت اسکے ہاتھ سے گرکرٹوٹ گیا۔ ساتھ ہی تیزآوازوں کے ساتھ غارکے اندر پتھر گرنے لگے۔ بڑی مشکل سےوہ اپنی جان بچا کرباہرنکلنے میں کامیاب ہوئے۔ مگروہ رازہمیشہ کےلیےدفن ھوچکا تھا۔

دادا زمین پرہی بیٹھ گئے۔ کچھ دیرکے لیےتوکوئی بھی نہ بول پایا لیکن پھردادا نےچپ توڑی۔

”بت توصرف نقشےکاایک حصہ تھا،اصل رازتووہ نایاب پودے تھے۔ ان پودوں کوآب حیات کے چشمےکےپانی سے پروان چڑھایا گیاتھا جسکی وجہ سےاسکےاندرھربیماری کے علاج کی طاقت موجودتھی۔ مگرشایداللہ نے اسےلالچی انسانوں کی پہنچ سے دورھی رکھنا مناسب سمجھا اسی لیےتو“۔۔۔۔ بات ادھوری چھوڑکروہ شکستہ قدموں سے چل پڑے۔

عاقب اپنے کیےپربہت شرمندہ تھا لیکن اب کیا ھوسکتاتھا۔ وقت گزرچکاتھا۔

سلمان نے اب آخری کام کونمٹانےکا فیصلہ کیا اور وہ تھا ستارہ بیگم کے قاتل کوسزا۔ عاقب اوراس نوجوان نےبھی اسکاساتھ دینے کی حامی بھرلی اور وہ تینوں حویلی کی طرف چل دیے جبکے دادا نےکچھ دیروہی بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔

سلمان نےاب پولیس سے مدد لینے کا فیصلہ کیا اورتھانے پہنچ گیا۔ اسنے الف سے یے تک کی ساری کہانی پولیس کو سنادی۔ پہلے توانسپیکٹرصاحب سلمان پرغصہ ہوئے لیکن پھراس کیس کی تحقیق کے لیے چل پڑے۔

سب سے پہلے تہ لاش کوقبرسے نکال کرپوسٹ مارٹم کے لیے بھیجا گیا اورپھربوڑھے کوحراست میں لے کراس سے پوچھ گچھ کی گئی۔ پولیس کی تھوڑی ہی سختی سےبوڑھے نے اعتراف جرم کرلیا۔ 

اس نےبتایاکہ وہ ستارہ بیگم کی دولت اورخاص طور پراس بت کودیکھ کرلالچ میں آگیا تھا۔

''میں نے چائےمیں زہرملا کرانکودے دیااورخودکسی کام کابہانابنا کرباہرچلاگیا کیونکہ میں انکواگراپنےسامنےمرتا دیکھتا تواحساس ندامت زیادہ ہوتا۔ لیکن جب  میں واپس آیا تووہ غائب تھیں۔ اسکے بعد سلمان نے جب اس کمرے کوتلاش کیا تومجھے اپنے رازکے کھلنے کا اندشہ ھواچنانچہ موقع دیکھ کرمیں نے لاش کوٹھکانے لگا دیا مگرشاید سچ ہی ہے کہ قتل چھپتا نہیں''۔

اس طرح سلمان نے نہ صرف راز کو سلجھایا بلکہ ستارہ بیگم کے قاتل کو بھی سزا دلوائی۔ عاقب کو سلمان کی مدد کی وجہ سے خوشی ہوئی اور اس نے سلمان کا شکریہ ادا کیا۔ اس مہم جوئی نے سلمان کو ایک بہترین صحافی بنا دیا تھا۔ لیکن ایک بات سلمان کوابھی بھی سمجھ نہیں آئی تھی کہ سلمان کوخط کس نے لکھاتھا؟ شاید کچھ باتیں راز ہی رہ جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Author
Admin